ججوں کی بحالی میں تاخیر کیوں؟
سکولوں میں آج بھی طلبہ میں ایک بات کی اہمیت کوٹ کوٹ کر بھری جاتی ہے وہ یہ ہے کہ آج کا کام کل پر نہ چھوڑو۔ یعنی جو کام جتنا جلد سر سے اتر جائے بہتر ہے۔ یہی اصول اگر نئی حکومت بھی اپنا لے تو اس ملک کے عوام کو کئی سیاسی مصیبتوں اور مشکلات سے چھٹکارا مل جائے۔ یہ ملک مزید تلخیوں سے بچ جائے۔
وہ مسئلہ جو کل کی جگہ آج حل طلب ہے وہ ہے معزول ججوں کی بحالی۔ جیسا کہ حکمراں اتحاد کی دو بڑی جماعتیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اعلانِ بھوربن میں کہہ چکی ہیں کہ ان ججوں کی بحالی قومی اسمبلی کی ایک قرار داد کے بعد کر دی جائے گی۔
اب سب کو انتظار ہے کہ وہ قرار داد کب آئے گی، جج بحال ہوں گے اور ملک ایک سال سے زیادہ عرصے سے چل رہے اس عدالتی بحران سے جان چھڑا پائیں گے۔ اب تو وفاقی حکومت بھی قدرے قائم ہوچکی ہے، قومی اسمبلی نے قانون سازی بھی شروع کر دی ہے ججوں سے متعلق قرار داد بھی مزید خون بہنے سے قبل آ جائے تو بہتر ہے۔
ججوں کی بحالی کے مسئلے پر حکمراں اتحاد سے مختلف اشارے مل رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کا وزیر اعظم کے حلف لینے کے وقت کہنا تھا کہ الٹی گنتی کا آغاز ہو چکا ہے۔ لیکن چند روز قبل وزیر اطلاعات شیری رحمان کا کہنا تھا کہ ججوں کی بحالی کے لیے الٹی گنتی نہ صرف وفاقی بلکہ چاروں صوبوں میں بھی حکومت سازی کے عمل کے مکمل ہونے پر شروع ہوگی۔
اب لوگ مانیں تو کس کی بات مانیں۔ وکلاء نے تو بظاہر حکومت کی ’تڑی‘ کے بعد خاموشی اختیار کر لی ہے۔ معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بھی اپنی رہائش گاہ پر اپنا ملک گیر دورہ ملتوی کرتے ہوئے خاموشی سے آکر بیٹھ گئے ہیں۔ ایسے میں گومگو کی سی صورتحال ہے۔
البتہ وفاقی وزیر قانون و انصاف فاروق ایچ نائیک نے جمعہ کو کچھ وضاحت کرتے ہوئے اور کچھ تسلی دیتے ہوئے اسمبلی میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے یقین دلایا ہے کہ عدلیہ کی بحالی کا معاملہ آئندہ ہفتے پارلیمنٹ میں طے ہو جائے گا۔ فاروق نائیک کابینہ کی اس کمیٹی کی سربراہی بھی کرتے ہیں جس کے ذمے ججوں کی بحالی کا طریقہ کار طے کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
اختلاف نہ صرف ججوں کی بحالی کی میعاد پر بلکہ طریقہ کار پر بھی دکھائی دے رہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) فوری بحالی کی بظاہر خواہاں ہے تو پیپلز پارٹی اسے ایک جامع آئینی ترامیم کے پیکج کا حصہ بنانا چاہتی ہے۔
کئی کو خدشہ ہے کہ صدر کی جانب نرم گوشہ رکھنے والی پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن کہیں ججوں کے مسئلے پر کوئی خفیہ ڈیل ہی نہ کر لیں۔ پیپلز پارٹی اسے ایک پیچدہ آئینے قضیے کےطور پر پیش کر رہی ہے تو مسلم لیگ (ن) پارلیمانی قرار کو اس کا آسان ترین حل بتا رہی ہے۔
سیاسی پنڈتوں کو خدشہ ہے کہ اس بڑے مسئلے کے طول پکڑنے سے سیاسی رنجیشیں اور تلخیاں مزید بڑھ سکتی ہیں۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جن کی اس ملک کو اس وقت ہرگز ضرورت نہیں۔ ارباب غلام رحیم اور شیر افگن نیازی سے جو سلوک ہوا اس سے ایک بات واضع ہوئی ہے کہ جمہوریت کی کافی دھکوں کے بعد چلنے والی یہ بس کو روٹ سے ہٹانے کی سازشیں بھی شروع ہو چکی ہیں۔
تاہم ایک مثبت پہلو وکلاء کی حد تک سب کو یہ یقین کامل دکھائی دیتا ہے کہ نئی حکومت جلد یا بدیر ججوں کو بحال کر ہی دے گی۔ اب تک کے مخمصے سے ایک بات واضع ہے کہ سب کو پریشانی صرف اونٹ کے کس کروٹ بیٹھنے کی نہیں بلکہ کب بیٹھنے کی بھی ہے۔
No comments:
Post a Comment